۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
عظمت علی 

واقعہ کربلا میں بے شمار کردار اور اخلاقی روشنی پھوٹتی نظر آتی ہے ۔ دشمن کو معاف کردینا اور دشمن سے عدل و انصاف کا سلوک کرنے کانام کربلا ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے شہر لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی عظمت علی نے محرم الحرم ۱۴۴۳ھ کی آمد پر کہا کہ ماہ عزا کی آمد ہوچکی ہے ۔ اس لیے تمام قسم کے اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر ایک ساتھ فرش عزا پرتشریف لائیں اور یہاں سے درس اخوت اور پیغام محبت لیتے جائیں ۔ مجالس ان شخصیات کے ذکر سے معمور ہوتی ہیں جن کے کردار کا ہلکا سا تراش بھی ہم اپنا لیں تو ہماری زندگی سنبھل جائے ۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے حر کی خطائیں معاف کردیں تھیں۔حر وہی شخص ہے جس نے لجام فرش پر ہاتھ ڈالا اور(ظاہری طورپر) امام کوکرب و بلا لے آیا ۔اگر آپ کربلا کے پس منظر میں ، حر کو شب عاشور سے پہلے دیکھیں تو وہ امام کا سخت دشمن تھا مگر جب امام کی خدمت میں آیا تو آپ نے اس کی خدمت کی۔ استقبال کی۔ یہ مرتبہ ایک دشمن کا ۔ ابھی حسینی قافلہ جس کیفیت میں ہے اس میں حر کا بڑا ہاتھ تھا مگر امام نے مدینہ سے نکلتے وقت کہا تھا کہ’میں اپنے نانا او ربابا کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کے لیے نکل رہا ہوں ۔ ‘

فتح مکہ کے وقت جب مکہ مسلمان کے دست قدرت میں آگیا تو کچھ لوگوں نے جوش فتح میںجیسے ہی ابوسفیان کو دیکھا، کہنا شروع کردیا کہ’آج تو روز انتقام ہے ۔ ‘اس وقت رسول اسلام ﷺ نے فرمایا: ’(نہیں …!)بلکہ آج تو معاف کرنے ، رحم و عطوفت کا دن ہے ۔ ‘وہی ابوسفیان جس نے اسلام کی نابودی کے لیے سر سے چوٹی تک زور لگادیا تھا اور جسے دیکھتے ہی مسلمانوں نے اپنے جذبہ انتقام کا اظہار کیا تھا، اسی دیرینہ اسلام دشمن کے سلسلے میں رسول رحمت فرمارہے کہ :’آج اگر کوئی شخص ابوسفیان کے گھر میں بھی پناہ لے رہا ہے تو وہ محفوظ ہے ۔ ‘ 

یہی سیرت امام علی علیہ السلام کی زندگی میں دیکھنے کو ملی ۔ جب آپ کو شہیدکرنے والا ظالم ابن ملجم گرفتار کیا گیا اور اس کی خبر امام کو ہوئی تو امام نے کہا :پہلے اس کو شربت پلاؤ۔ پھروصیت کی کہ قصاص کی صورت میں اسے صرف ایک ہی ضرب لگائی جائےکیوں کہ اس نے بھی مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے ۔

واقعہ کربلا میں بے شمار کردار اور اخلاقی روشنی پھوٹتی نظر آتی ہے ۔ دشمن کو معاف کردینا اور دشمن سے عدل و انصاف کا سلوک کرنے کانام کربلا ہے ۔ ابوسفیان اور ابن ملجم اسلام کے دشمن تھے، رسالت و امامت نے ان کے ساتھ انسانیت کا سلوک روا رکھا لیکن آج کل فرش عزا پر آنے والے مومنین کی دل آزاری کی جاتی ہےجو کہ بہرحال غیر معقول رویہ ہے ۔ 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .